ہم “ہفتہ رضوان” منا رہے ہیں!!!

حافظ محمد عمران

ہم “ہفتہ رضوان” منا رہے ہیں!!!

سات فروری کو راولپنڈی میں وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان نے اپنے ٹیسٹ کیرئیر کی پہلی سینچری سکور کی تو گیارہ فروری کو وہ قذافی سٹیڈیم میں ٹونٹی ٹونٹی کیرئیر کی پہلی سینچری سکور کر کے تاریخ کی کتابوں میں اپنا نام درج کروانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

چار فروری سے گیارہ فروری تک وہ وکٹوں کے پیچھے یعنی گلوز کے ساتھ اور بیٹنگ کرتے ہوئے بہترین کھیل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے ٹونٹی ٹونٹی میں رضوان کی طرف سے ریزا ہینڈرکس کے رن آؤٹ کو بھی سوشل میڈیا صارفین انیس سو بانوے عالمی کپ میں جونٹی رہوڈز کے انضمام الحق کے رن آؤٹ سے موازنہ کرتے ہوئے لکھ رہے ہیں کہ حساب برابر ہو گیا ہے۔

محمد رضوان نے مسلسل عمدہ کھیل سے ناصرف اپنا انتخاب درست ثابت کیا ہے بلکہ انہوں نے بھرپور انداز میں صلاحیتوں کے اظہار سے شاندار مستقبل کی نوید سنائی ہے۔ وکٹ کیپر نے اپنی کارکردگی سے سب کے دل جیت لیے ہیں وہ ایک حقیقی ٹیم مین، متحرک، پوری جان مارنے، کبھی ہمت نہ ہارنے والے کھلاڑی کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔

مشکل حالات میں بہترین بیٹنگ اعصاب کی مضبوطی اور کھیل کی سمجھ بوجھ کو ظاہر کرتی ہے۔ رضوان پر بھرپور اعتماد کی وجہ سے مکی آرتھر کو بھی تنقید کا سامنا رہا اس کے بعد مصباح الحق پر بھی تنقید ہوئی۔

مکی آرتھر پر تنقید کی وجہ یہ تھی کہ وہ دو وکٹ کیپرز کے ساتھ چلتے تھے اس حکمت عملی کی وجہ سے سابق کرکٹرز مکی آرتھر پر پسند نا پسند کا الزام عائد کرتے تھے۔ اس دوران محمد رضوان محنت کرتے خامیوں کو دور کرنے اور صلاحیتوں کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ بہتر موقع کے منتظر تھے پھر سرفراز احمد کی خراب فارم کی وجہ سے بورڈ نے انہیں کپتانی سے ہٹایا تو رضوان کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔

یہاں سے رضوان نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا وہ جہاں گئے کامیابی کے جھنڈے گاڑتے گئے۔ وہ آسٹریلیا ہو انگلینڈ، نیوزی لینڈ پھر اپنے میدان رضوان نے ہر جگہ بہترین کھیل سے لکھنے، بولنے والوں کی رائے کو تبدیل کیا ہے۔

یہ ان کی بڑی کامیابی ہے کہ وہ سرفراز احمد اور کامران اکمل کی موجودگی میں پاکستان کے نمبر ون وکٹ کیپر کی حیثیت سے سامنے کھڑے ہیں۔ ان کی اس کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اب سرفراز احمد کے لیے مستقل بنیادوں پر قومی ٹیم میں واپسی نہایت مشکل ہے۔

اب یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب رضوان کی کارکردگی نہایت خراب ہو جائے(موجودہ حالات میں یہ مشکل ہے) یا پھر خدانخواستہ وہ ان فٹ ہو جائیں اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

ان حالات میں بھی سرفراز یا کامران کی واپسی نہایت مشکل دکھائی دیتی ہے کیونکہ نوجوان وکٹ کیپر بلے باز روحیل نذیر پر بہت کام ہو رہا ہے اور کوئی بھی ٹیم مینجمنٹ واپس جانے کے بجائے مستقبل کو دیکھتے ہوئے روحیل نذیر کو منتخب کرنے میں زیادہ دلچسپی ظاہر کرے گے۔


اس لیے یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ رضوان نے سرفراز اور کامران کی واپسی کے سب دروازے بند کر دیے ہیں۔
کھیلوں کی سینئر صحافی عالیہ رشید کہتی ہیں کہ “رضوان کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے اور اسے قبول کرتے ہیں وہ اچھی بری ہر طرح کی کارکردگی میں ٹیم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔

پہلے ٹونٹی ٹونٹی میں بابر اعظم کے آؤٹ ہونے کے بعد یہ چیز واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے اور یہ میں نے اس وقت بھی محسوس کیا تھا جب وہ خیبر پختونخوا کی کپتانی کر رہے تھے۔

رضوان سرفراز احمد کی موجودگی میں کافی وقت سفر کرتے رہے لیکن اس دوران انہوں نے تھکنے کے بجائے بہتری کے لیے کام کیا۔ ہم سب ان کی ٹونٹی ٹونٹی میں شمولیت پر تنقید کرتے رہے ہیں لیکن انہوں نے اسٹرائیک ریٹ کو بہتر بنا کر اپنا انتخاب درست ثابت کیا ہے۔ رضوان اور حسن نے واقعی بہت کام کیا ہے اور وہ کارکردگی کی صورت میں نظر بھی آ رہا ہے۔ یہ دونوں جوش و جذبے، ہمت نہ ہارنے اور محنت کرنے والے کھلاڑی ہیں”۔

رضوان کی کامیابی پر بات کرتے ہوئے ہمیں مصباح الحق کو ضرور یاد کرنا چاہیے کیونکہ انہیں سرفراز احمد کو ڈراپ کرنیکا مشکل فیصلہ کرنے پر بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ محمد رضوان کو ملنے والے مسلسل مواقع اور اعتماد ہی نے انہیں کامیابیوں کے راستے پر ڈالا ہے۔

مصباح الحق اور محمد رضوان نے اپنی کارکردگی سے سب کو غلط ثابت کیا ہے۔ رضوان پر بھی بالکل اسی انداز میں محنت اور اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے جیسے مکی آرتھر نے بابر اعظم پر اعتماد اور محنت کی تھی۔ بہرحال رضوان کی موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ لائن میں مضبوط اضافہ ہیں اور وہ دیر تک ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے ٹیم کی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

دو ہزار انیس کی چھ ٹیسٹ اننگز میں رضوان نے دو سو دو 2020 کی سات اننگز میں تین سو دو اور 2021 کی پانچ اننگز میں 237 رنز سکور کر چکے ہیں۔ راولپنڈی سے سینچری کرتے ہوئے لاہور پہنچنے والے رضوان نے یہاں بھی تھری فگر اننگز سے آغاز کیا ہے۔ اس کارکردگی کی بدولت وہ ناقدین کو مداح بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

یہ کارکردگی دیکھتے “ہفتہ رضوان” منانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ کل تک کہا جاتا تھا کہ وہ کامبی نیشن میں نہیں آتے لیکن آج وہ کسی بھی کامبی نیشن کا لازمی جزو بنتے جا رہے ہیں۔ رضوان نے یہ مقام مستقل محنت سے حاصل کیا ہے۔

عاجزی ان کی شخصیت کی اضافی خوبی ہے وہ اپنی ناکامیوں کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں اور ساتھی کھلاڑیوں کا حوصلہ بھی بڑھاتے رہتے ہیں۔ برسوں کی محنت اور صبر رنگ لا رہا ہے ایسی کرکٹ اور کارکردگی قسمت والوں کو ملتی ہے۔ اس سلسلے کو برقرار رکھنے کے لیے وکٹ کیپر کو زیادہ توجہ، زیادہ محنت اور یکسوئی کی ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ وہ دیر تک قومی ٹیم کا حصہ رہتے ہوئے ناصرف ایک اچھے کھلاڑی بلکہ پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے بھی ملک کا نام روشن کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں